Add To collaction

لیکھنی ناول -20-Oct-2023

تُو عشق میرا از قلم عائشہ جبین قسط نمبر20

صبح کی روشنی رات کی تاریکی پر غالب آگی تھی ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی جو جاتی سردیوں کو واپس آنے پر مجبور کررہی تھی وہ نمازپڑھنے کے بعد بنا علی سے بات کیے باہر آکر بیٹھ گی تھی اس وقت اس کےدماغ میں بہت کچھ چل رہاتھا کبھی وہ علی کا رات رویہ سوچتی اور کبھی صدف کی باتیں اور کبھی علی کی نماز والی انوکھی سی خواہش اور کبھی اپنا جذباتی پن کیسے بے خود ہوکر اسکا منہ صاف کرنے لگی تھی میں بھی نا بلکل پاگل ہو ں پتا نہیں کیوں ہر بات مانتی ہوں اس کی جب سامنےآجاتا ہے تو کچھ خیال نہیں رہتا جو کہتا ہے ہر بات ماننے کو دل کرتا ہے کیوں انکارکرسکتی ہوں اس کی کسی بات سے میں میں کیوں اس کے رنگ میں ڈھلنا چاہتی ہوں جیسا وہ چاہتا ہے کیوں ویسی بننا چاہتی ہوں کیوں اس کی کسی بات سے انکار کرنے کا سوچ کر لگتا ہے بہت غلط کررہی ہوں اور صدف اس کو کیوں بولا میں نے وہ سب جب کہ وہ سچ ہی تو بول رہی تھی کہ میں اور علی ایک منٹ وہ اتنا سب کیسے جانتی ہے میرے اور علی کے درمیان کیا ہے اور کیا نہیں ابھی تک گھر میں بھی صرف مریم آپی جانتی ہیں انکو میں نے بتایا ہے اور نجف بھاٸی ان کو علی نے یہ باتیں ہم تینوں تو بتا نہیں سکتے بچا صرف علٕی ہہہہممم علی شاہ تم تم نےبتایا ا س کو سب یعنی اب میں اس قابل بھی نہیں کہ وہ میرا پردہ رکھتا میں تو اس کا لباس ہوں وہ کیسے مجھے اس لڑکی کے سامنے رسوا کرسکتاہے اور کچھ نہیں دوستی کا مان ہی رکھ لیتا تو کیا ہوجاتامگا نہیں تم نے تومجھےبے مول کردیا علی شاہ میں کبھی معاف نہیں کروں گی تمہیں کبھی بھی نہیں ہرگز نہیں وہ خودکلامی کرتےہوۓرونے لگی علی اس کو تلاش کرتا ہوا باہر آیا اس کو باہر چٸیر پر بیٹھا دیکھ کر اس کی سمت آیا تم یہاں بیٹھی ہو میں تمہیں اندر تلاش کررہاتھا باہر کیوں آگی ہوجاتی سردی ہے اور تم بنا سوٸٹر کے باہر آگی ہوایسے مت کرو سردی لگ جاۓگی پتاتوہے تمہیں جاتی سردی کیسے تم پر اٹیک کرتی ہے آو چلو اندر چلتےہیں علی نے اس کا بازو تھامنا چاہا تو ہادیہ نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا اور علی کےمقابل کھڑے ہوکربولی منع کیاتھا نا میرے قریب مت آنااپنا یہ رعب اپنےپاس رکھو اوراپنی یہ جھوٹی ہمدردی بھی مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے کچھ بھی نہیں دوبارہ میری فکر میری پرواہ کرنے کی کوٸی ضرورت نہیں ہے مجھے تم سے کچھ بھی نہیں چاہیے وہ ایک ایک لفظ چبأچبا کر بولی تم آیا کرو میرے سامنے وحشت ہوتی ہے مجھے وہ بول کر جانے لگی تو علی نےاس کاہاتھ پکڑکر اس کو روکا کیا سمجھتی ہو خود کو تم بہت ہی کوٸی حور پری ہو فکر ہےمجھے تمھاری مرا جارہاہو تمھارے لیے جاو تم اپنا کام کرو جیو یامرو مجھے کوٸی پرواہ نہیں تمھاری تو پرواہ ہی نہیں کرنی چاہیے یہ تو خالی ہے تمھارا وہ اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا ابھی کچھ دیر پہلے تو بلکل ٹھیک تھی اب کونسا دورہ پڑگیا ہے سمجھ نہیں آتا عجیب ساٸیکو ہوتی جارہی ہو میں نہیں تم وہ ساٸیکو مت کیا کرو مجھے یہ احسان ا س پر جاکر کرو جس کے لیے تم تڑپ رہے ہو وہ اس کو دھکیل کر اندر جانے لگی علی نے اد کو جاتا دیکھا ار و پھر اپنے لفظوں پر غور کر کے دونوں ہاتھوں کا پینجا بنا کر سرکے پہھچےکیا اور تھکے انداز میں چٸیرپر گرنےکے انداز میں بیٹھ گیا کیا یار سب پتانہیں کیوں اس کو روتا دیکھ کر بےخود ہوجاتا ہوں اور اس کو پتا نہیں کونسے نخرے ہیں جو ختم ہی نہیں ہوتے کیا ہوگا سب سمجھ سے باہر ہے اور یہ حید ر کابچہ پتا نہیں کیا بولا اس نے رات سے دماغ اوردل میں جنگ جاری ہے
الللہ میری مدد کر بول کر آنکھیں موند لیں $$####+*=%=&&&&&&&&&&&& آپکی وجہ سےموم مجھے دوٹکے کی لڑکی کے منہ لگنا پڑا اس جیسی کو میں اپنی جوتی کی نوک پر رکھتی ہوں جانتی ہیں اس گھٹیا لڑکی نےمجھے کتنی باتیں سناٸی کیابکواس کی اس نے مجھے سے ۔۔۔۔۔۔۔ گالی دےکر بولی میں اس کی اترن پہنو گی وہ علی ا س کی اترن ہوگا میرٕےوہ غصے میں پاگل ہوتٕے ہوۓبولی صدف ہوش کرو تم ایسے ہمت ہار نہیں سکتی ہم اپنی منزل کے بہت قریب ہٕیں تمھاری چھوٹیسے غلطی سب خم کردے گی اور وہ لڑکی جھوٹ بول رہی اس کے اور علی کے درمیان ایسا کچھ نہیں ہے کہ علی اس اترن کیسے ہوسکتا ہے وہ چاہیے اس کےساتھ ایک کمرے میں رہتی ہے پر ان کے درمیان ایسا کچھ نہیں اتنا تجربہ ہے مجھے وہ تمہیں بے وقوف بنا رہی تھی اور تم بن گی
شمع شاہ اپنی بیٹی کو سمجھاتے ہوۓ بولی
موم اگر ایسا نہیں ہے تو وہ اتنے دعوے سے کیسے بول رہی تھی اور وہ اس کو دیکھا ہے کیسے وہ ہر وقت اس کے ارد گرد گھومتا رہتا ہے جیسےوہ اس کا طواف کرتا ہے موم وہ چلاک لڑکی ایک دن اس کو اپنے جال میں اتارے لے گی وہ اس کے نکاح میں ہے اس کی بیوی ہے جب چاہیے اس کو اپنا بناسکتی ہے تو تم کیوں خاموش ہو کچھ ایسا کرو وہ اس کی بیوی نہ رہے یہ مقام تمھارا ہوجاۓاور ہادیہ شاہ پھر سے ہادیہ ملک ہوجاۓ تمہی علی مل جاۓ گا اور مجھے میرا بدلہ جو مجھے اس کے باپ نعمان ملک سے لینا ہے میں کبھی بھول نہیں سکتی کیسے اس نے کیاتھا میرے ساتھ آج سے 22 سال پہلے وہ کچھ یاد کرکے بولی توان لہجے میں عجیب سے پھنکار تھی تو پھر اب آپ بتاٸیں میں کیاکرو ں صدف بولٕی جب گھی سیدھی انگلٕی سے نہیں نکلتا تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑتی ہے تو سنو اب جو میں بولوں گی وہ تمہں کرناہوگا ا س سے سانپ بھی مرجاۓ اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی ع علی ہادیہ کو دھکے دے کر گھر سے نکالے گا اور اجڑی ہوٸی بیٹی کو دیکھ کر نعمان ملک کا سانس روکے جاۓ گا اسکے بعدعلی تمھارا اور میرا بدلہ پورا ہوجاۓگا شعشاہ صدف کو اپنا پلان بتانے لگی جس کو سن کر صدف کی آنکھییں چمکنےلگی اور وہ دونوں مکرو ہنسی ہنسنے لگی یہ بھول کر کہ وہ رب العزت فرماتا ہے آۓ ابن آدم ایک تیری چاہ ہے ایک میری چاہ ہے ہوگا وہی جو میں نے چاہ ہے ہم لوگ اپنے گمان میں اس قدر کھو جاتے ہیں بھول جاتے ہیں اس دنیا کا نظام چلانے والا وہ واحد ہے اس کے حکم کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہلتا تو کیس کا کوٸی پلان کیسے کامیاب ہوگا اس کی نظر ہر چیز پر ہے وہ آسمانوں کے اوپر زمین کے اوپر اس کے نیچے موجود ہر چیز سے باخبر ہے وہ جو ہمارے دل میں ہے وہ جو ہمارے دماغ میں ہے اور بھی جوابھی نہ سوچنا ہوتا ہے جو سوچنا چاہا رہے ہوتےہیں وہ بہت باریک بین زبردست ہے ( بے شک) اب تجھےکیاھوگیاہےتیرا منہ کیوں لٹکا ہوا ہے کسی روٹھی محبوبہ کی طرح
حیدر نے علی کو کافی کامگ پکڑایا تو علی نے اس کو گھور کر دیکھا دل تو کررہا ہے یہ کافی تیرے سر پر گرا دوں کل سے سب نے دماغ خراب کررکھاہے جس کو دیکھو نخرے ختم نہیں ہورہے وہ چڑ کر بولا
ہواکیا ہے منہ سے پھوٹے گامجھے خواب آتےہیں جو پتا چلے گا شہزادے کا دماغ اور موڈ کیوں خراب ہے اور رات جو بکواس کی تھی اس کاتجھے الہام ہواتھا جیسے بے غیرت کہی کا تیرے چکر میں پتا نہیں کرتا میں علی کافی کاگھونٹ بھر کر بولا کیاکرتا مطلب کیاکرناتھا جو نہیں کیاتو نے حیدر اچھل کر اس کےساتھ آکر صوفے پر ٹکا دفع ہوجاتو یہاں سےگھٹیا انسان بات کرنے کی تمیز ہی نہیں تجھے کل کیابکواس کی تھی تو نے ہادیہ مجھے محبت کرتی ہے اور میں اس سے محبت کرتا ہوں وہ تو مجھے دیکھنا بھی چاہتی وہ نفرت کرتی ہے مجھے جانتا ہے تو اس کیا بولا مجھے سے تو نے کیابولا اس سے اور کیا کیا تونے اس کے ساتھ اب یہ بتا حیدر نے اس کی بات کاٹ کر پوچھا کیا کرناتھا یار مجھے میں صبح گھر گیاتو وہ نماز پڑھنےلگی تھی میں نے اس کو بولا میری امامت میں نماز پڑھو گی
وہ کچھ پل کے کیے خاموش ہوا اور پر نہایت آہستہ آواز میں بولا پھر اس نے میرے ساتھ نماز پڑھی اور ا س کے بعد اس کی بعد تو کی ہوگی کوٸی بے غیرتی حیدردانتوں کی نماٸش کرکے بولا جس پر علی نے ا س کو جن نےنظروں سےدیکھاحیدرنے اپنی شہادت کی انگلی ہونٹوں پر رکھی اور اس کو بولنے کا اشارہ کیا یار میں اپنی کیفیت سمجھ نہیں پارہا ہم دونوں ایک کمرے میں تو رہتے ہیں پر پر کیا حیدر بولا اور اس کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگا یار مجھے لگتا ہے تیرےسامنے سب سچ بولنا پڑے گا علی ٹھنڈی سانس لے کر بولنے لگا اور اس کو شروع سے آج صبح تک کی ساری بات بتادی جسے کو حیدر نےبہت غور سے سنا اور اس کو ملامتی نظروں سےدیکھ کر بولا لعنت ہے تجھے پر اس معصوم کے ساتھ اتنا کچھ کرکے تو سمجھتا ہے تو اس کو فجرکی نماز کی امامت کراۓ گا اور وہ تیرے سارے قصور معاف کردے گی نفریں ہیں تجھ پر یار کچھ تو سوچتا پہلے دن اس کو کمرے سے نکال دیا تونے اب خاموش بھی ہوجا کبھی ہاتھ تو نہیں اٹھایا اس پر علی نے تھکے لہجے میں بولا تو یہ حسرت لے کر کیوں پیھر رہا ہے یہ بھی پوری کرلے یہ ارمان بھی پورا کرلے کوٸی خواہش رہ نہ جاۓتیرے دل میں حیدر جل کر بولا
اب تو میرےساتھ بکواس کرتا رہے گا یہ بتاے گا میں کیا کروں میں بہت الجھا ہوا ہوں وہ اپنے بال میں انگلیوں پھنسا کر بولا تو وہ کرے گا جو میں بولوں گا جیسا میں بولوں ویسا ہی کرے گا اب تو سمجھا سیدھا اسی راستے پر چلےگا ادھر ادھر دیکھے بنا کوٸی آواز سنے بنا سمجھا حیدر علیکو انگلی دکھاتے ہوۓ بولا علی نے لب باہم ملا کر اسکو اثبات میں سرہلایا تو سن وہ اسکو سمجھانےلگا جس سن کر علی کی آنکھیں پھیلتی جارہی تھی

   0
0 Comments